Ads 468x60px

Ramadan









رمضان المبارک کی فضیلت اوراس کے تقاضے

رمضان المبارک قمری مہینوںمیں سے نواں مہینہ ہے اﷲ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہے، حدیث مبارک میں ہے کہ ”رمضان شہر اﷲ“ رمضان اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مبارک مہینے سے رب ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔ اس ماہ سے خصوصی تعلق سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی تجلیات خاصہ اس مبارک ماہ میں اس درجہ نازل ہوتی ہیں گویا موسلا دھار بارش کی طرح برستی رہتی ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ اس کے اول حصہ میں حق تعالیٰ کی رحمت برستی ہے جس کی وجہ سے انوار و اسرار کے ظاہر ہونے کی قابلیت و استعداد یپدا ہوکر گناہوں کے ظلمات اور معصیت کی کثافتوں سے نکلنا میسر ہوتا ہے اور اس مبارک ماہ کا درمیانی حصہ گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے اور اس ماہ کے آخری حصہ میں دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوتی ہے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین کو بند کردیا جاتا ہے اور مضبوط باندھ دیا جاتا ہے اور سرکش جنوں کو بھی بند کردیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اس کا کوئی بھی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے اے نیکی کے طالب آگے بڑھ کہ نیکی کا وقت ہے اور اے بدی کے چاہنے والے بدی سے رک جا اور اپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھ کیونکہ یہ وقت گناہوں سے توبہ کرنے کا اور ان کو چھوڑنے کا ہے اور خدا تعالیٰ کے لیے ہے اور بہت سے بندوں کو اﷲ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں دوزخ کی آگ سے بحرمت اس ماہ مبارک کے اور یہ آزاد کرنا رمضان شریف کی ہر رات میں ہے شب قدر کے ساتھ مخصوص نہیں۔

روزہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کو رب ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور قیامت کے دن رب تعالیٰ اس کا بدلہ اور اجر بغیر کسی واسطہ کے بذات خود روزہ دار کو عنایت فرمائیں گے چنانچہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے ”الصوم لی وانا اجزی بہ“ روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے، فرمایا کہ روزہ دار کے منہ کی بو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ پسندیدہ ہے گویا روزہ دار اﷲ تعالیٰ کا محبوب ہوجاتا ہے کہ اس کی خلوف (منہ کی بو) بھی اﷲ تعالیٰ کو پسند اور خوشگوار ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت کو شروع سال سے آخر سال تک رمضان المبارک کی خاطر آراستہ کیا جاتاہے اور خوشبوﺅں کی دھونی دی جاتی ہے پس جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جس کا نام مشیرہ ہے جس کے جھونکوں کی وجہ سے جنت کے درختوں کے پتے اور کواڑوں کے حلقے بجنے لگتے ہیں جس سے ایسی دل آواز سریلی آواز نکلتی ہے کہ سننے والوں نے اس سے اچھی آواز کبھی نہیں سنی پس خوشنما آنکھوں والی حوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنت کے بالا خانوں میں کھڑی ہوکر آواز دیتی ہیں کہ کوئی ہے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم سے منگنی کرنے والا تاکہ حق تعالیٰ شانہ اس کو ہم سے جوڑ دیں پھر وہی حوریں جنت کے دروغہ سے پوچھتی ہیں کہ یہ کیسی رات ہے وہ لبیک کہہ کر جواب دیتے ہیں: ”اے خوب صورت اور خوب سیرت عورتو یہ رمضان المبارک کی پہلی رات ہے اور حق تعالیٰ شانہ رضوان (جنت کے دروغہ) سے فرماتے ہیں کہ جنت کے دروازے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کے روزہ داروں کے لیے کھول دو اور جہنم کے دروغہ مالک سے فرماتے ہیں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کے روزہ داروں پر جہنم کے دروازے بند کردو اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ زمین پر جاﺅ اور سرکش شیاطین کو قید کرو اور گلے میں طوق ڈال کر دریا میں پھینک دو کہ میرے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کے روزہ داروں کو خراب نہ کریں۔

رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے شب و روز کے اوقات کو صالح اعمال کے ساتھ مزین اور معمور رکھنے کی سعی اور کوشش میں مصروف رہنا چاہیے اور دوسرے مہینوں کی دائمی عبادت کے ساتھ بعض دوسری عبادات کو اس ماہ مبارک میں مقرر کرنے سے شریعت کی یہی غرض معلوم ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک کا ہر لمحہ اور گھڑی عبادت و ریاضت میں گزرے لیکن حاجت بشریہ میں گھرے ہوئے انسان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنے کاروبار اور بشریت کے تقاضوں سے علیحدہ ہوکر ہمہ وقت عبادات میں مشغول ہوجاتا ہے اس لےے انسانوں کے ضعف اور ان کی ضروریات طبعیہ پر نظر فرماتے ہوئے رب تعالیٰ کی رحمت نے دستگیری فرمائی اور اس ماہ مبارک میں ایسے انداز میں عبادت کو فرض کے طور پر متعین فرمادیا کہ انسان اس عبادت کے ساتھ اپنی تمام ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اور عین اسی خاص طریقہ عبادت میں بھی مشغول ہوسکتا ہے۔ ایسی خاص طریقہ کی عبادت کو روزہ کہا جاتا ہے جسے اس ماہ میں فرض فرمادیا گیا ہے روزہ ایک عجیب عبادت ہے کہ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا ہے روزہ رکھ کر صنعت و حرفت تجارت و زیارت ہرکام بخوبی احسن کرسکتا ہے اور پھر بڑی بات یہ کہ ان کاموں میں مشغول ہونے کے وقت بھی روزہ کی عبادت روزہ دار سے بے تکلف خودبخود صادر ہوتی رہتی ہے اور اس کو عبادت میں مشغولی کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس ماہِ مبارک کی صحیح قدر کرنے والا بندہ بنادے ، آمین۔